Wednesday, 14 May 2014

اسے کہنا یہ دنیا ہے !

اسے کہنا یہ دنیا ہے !

یہاں ہر موڑ پہ ایسے بہت سے لوگ ملتے ہیں !
جو اندر تک اترتے ہیں !

ابد تک ساتھ رہنے کی !
اکھٹے درد سہنے کی !
ہمیشہ بات کرتے ہیں !

اسے کہنا . . !
یہ دنیا ہے !

یہاں ہر شخص مطلب کی !
حدوں تک ساتھ چلتا ہے . . !

جونہی موسم بدلتا ہے !

محبت کے سبھی دعوے !
سبھی قسمیں !
سبھی وعدے !
سبھی رسمیں !
اچانک ٹوٹ جاتے ہیں !

اسے کہنا … . !
یہ دنیا ہے … !

تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی

تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی 
محبت کی راہوں میں آ کر تو دیکھو 
تڑپنے پہ میرے نہ پھر تم ہنسو گے 
ذرا دل کسی سے لگا کر تو دیکھو

وفاؤں کی ہم سے توقع نہیں ہے
مگر ایک بار آزما کے تو دیکھو 
زمانے کو اپنا بنا کر تو دیکھا 
ہمیں بھی تم اپنا بنا کر تو دیکھو 

خدا کے لئے چھوڑ دو اب یہ پردہ
کہ ہیں آج ہم تم نہیں غیر کوئی
شب وصل بھی ہے حجاب اس قدر کیوں
ذرا رخ سے آنچل اٹھا کر تو دیکھو

جفائیں بہت کیں بہت ظلم ڈھاۓ
کبھی اک نگاہ کرم اس طرف بھی
ہمیشہ ہوۓ دیکھ کر مجھ کو برہم
کسی دن ذرا مسکرا کر تو دیکھو

جو الفت میں ہر اک ستم ہے گوارہ
یہ سب کچھ ہے پاس وفا تم سے ورنہ
ستاتے ہو دن رات جس طرح مجھ کو
کسی غیر کو یوں ستا کر تو دیکھو

اگر چہ کسی بات پر وہ خفا ہیں
تو اچھا یہی ہے تم اپنی سی کر لو
وہ مانے نہ مانے یہ مرضی ہے ان کی
مگر ان کو پرنم منا کر تو دیکھو

تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی
محبت کی راہوں میں آ کر تو دیکھو

نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا

نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس اک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا

نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے
اگر زمین نے ہلکا سا اک اشارہ کیا

جو دل کے طاق میں تو نے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا

پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کے لے آیا
یہ کام دل نے بغیر اجرت و خسارہ کیا

عجب ہے تو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا
اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارا کیا

ہمیشہ ہاتھ رہا ہے جمال آنکھوں پر
کبھی خیال کبھی خواب پر گزارہ کیا

ایہہ اتھرا عشق نئیں سون دِندا، ساری رات جگائی رکھدا اے

ایہہ اتھرا عشق نئیں سون دِندا، ساری رات جگائی رکھدا اے
جنہوں لگ جاندا اونہوں محشر تک سُولی تے چڑھائی رکھدا اے

گُجّے تیر چلا کے نیناں دے، سانوں لذّت بخشے زخماں دی
ربّا تیر انداز دی خیر ہووے، ساڈے زخم سجائی رکھدا اے

اُس بے پرروا دی ایس عادت ساڈا حال تباہ کر چھڈ یا اے
چَن وعدہ کر کے نئیں آندا، سانوں تارے گنائی رکھدا اے

کِتے کیچ شہر دا شہزادہ، کِتے زینت بلخ بخارے دی
کِتے والی تخت ہزارے دا،کِتے مجھیاں چرائی رکھدا اے

کدے عرشاں تے کدی غاراں وچ،کدے مصر دیاں بازاراں وچ
کربل دے محشر زاراں وچ، سجن ازمائی رکھدا اے

اوہدے قاتل نین نشیلے نیں، اوہدے ابرو شوخ سجیلے نیں
سانہوں لُٹیا اُس شرمیلے نیں، جیہڑا نظر جھکائی رکھدا

کہا یہ اُس نے کہ ہے مستند کہا میرا

کہا یہ اُس نے کہ ہے مستند کہا میرا
کہی نہ بات کسی مستند حوالے سے

بچھڑ کے مجھ سے اُسے ماننا پڑا یہ بھی
وہ معتبر تھا اگر، تھا مرے حوالے سے

ﻋﻤﺮ ﮔﻮﺍﺋﯽ ﻭﭺ ﻣﺴﯿﺘﯽ

ﻋﻤﺮ ﮔﻮﺍﺋﯽ ﻭﭺ ﻣﺴﯿﺘﯽ
ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮭﺮﯾﺎ ﻧﺎﻝ ﭘﻠﯿﺘﯽ
ﮐﺪﮮ ﻧﻤﺎﺯ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﻧﮧ ﻧﯿﺘﯽ
ﮨﻦ ﮐﯽ ﮐﺮﻧﺎﺋﯿﮟ ﺷﻮﺭ ﭘُﮑﺎﺭ
ﻋﺸﻖ ﺩﯼ ﻧﻮّﯾﻮﮞ ﻧﻮّﯾﮟ ﺑﮩﺎﺭ
ﻋﺸﻖ ﺑُﮭﻼﯾﺎ ﺳﺠﺪﮦ ﺗﯿﺮﺍ
ﮨﻦ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﯾﻨﻮﯾﮟ ﭘﺎﻭﯾﮟ ﺟﮭﯿﮍﺍ
ﺑﻠﮭﺎ ﮨﻮﻧﺪﺍ ﭼﭗ ﺑﺘﯿﺮﺍ
ﻋﺸﻖ ﮐﺮﯾﻨﺪﺍ ﻣﺎﺭﻭ ﻣﺎﺭ
ﻋﺸﻖ ﺩﯼ ﻧﻮّﯾﻮﮞ ﻧﻮّﯾﮟ ﺑﮩﺎﺭ
ﺑﻠﮭﮯ ﺷﺎﮦ

دل دا کی میں حال سناواں

دل دا کی میں حال سناواں
وِچ ہِجر دے گُھلدی جاواں
تیری یاد اِچ پاگل ہو کے
اپنا آپ وی بُھلدی جاواں
عشق دے پَیری گھنگھرو پا کے
نَچ کے رُسیا یار مناواں
لوکی تیرے دیون طعنے
چُپ کیتی میں سُندی جاواں
تُوں تے ٹُر گئیوں چھڈ کے مینوں
دس میں تینوں کیویں بُھلاواں
تُوں ایں وَسداں رُوح اِچ میری
تیرے اُچ میں کیویں سماواں
آس تیرے آون دی لاء کے
سُولاں دے پئی گیت میں گاواں
مینوں اپنی باندی کر لے
میں تیرے پئی ترلے پاواں
رُتبہ شاہ دا لبھ نئیں سکدا
لکھ بُلھے دا بھیس وٹاواں
ربا یار ملا دے ہُن تے
میں کملی کتھے مر ای نا جاواں

وہی کارواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے

وہی کارواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں، کبھی ہم نہیں

نہ وہ شانِ جبرِ شباب ہے، نہ وہ رنگ قہرِ عذاب ہے
دلِ بے قرار پہ ان دنوں، ہے ستم یہی کہ ستم نہیں

نہ فنا مری، نہ بقا مری، مجھے اے شکیلؔ نہ ڈھونڈیئے
میں کسی کا حسنِ خیال ہوں، مرا کچھ وجود و عدم نہیں

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

محلے کی سب سے پرانی نشانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جہریوں میں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی

کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گھڑیا کی شادی میں لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گر کہ سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی

کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کہ مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں خیالوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کا بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی

یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعاکرو، نہ دوا کرو

یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعاکرو، نہ دوا کرو
جو کرو تو اتنا کرم کرو، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو

یہ جو ایک ترکشِ وقت ہے، ابھی اس میں تیر بہت سے ہیں
کوئی تیر تم کو نہ آلگے ، مرے حالِ دل پہ نہ یوں ہنسو

میں نہ قیس ہوں، نہ ہوں کوہکن، مجھے اپنی جان عزیز ہے
مجھے ترکِ عشق قبول ہے جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو

جو تمھارے دل میں شکوک ہیں تو یہ عہد نامے فضول ہیں
یہ تمھارے خط ہیں سنبھال لو، جو مرے خطوط ہوں پھاڑ دو

جو کوئی کسی کو ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا
یہ تو اک اُصول کی بات ہے جو خفا ہو مجھ سے تو کوئی

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا

بجھا سکا ھے بھلا کون وقت کے شعلے
یہ ایسی آگ ھے جس میں دھواں نہیں ملتا

جسے بھی دیکھئے، وہ اپنے آپ میں گم ھے
زباں ملی ھے مگر ھم زباں نہیں ملتا؎

تیرے جہان میں ایسا نہیں کہ پیار نہ ھو
جہاں امید ھو اسکی، وهاں نہیں ملتا

ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ افسانے ہو جاتے ہیں

ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ افسانے ہو جاتے ہیں
آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں خواب پرانے ہو جاتے ہیں

ساری بات تعلق والی جذبوں کی سچائی تک ہے
میل دلوں میں آجائے تو گھر ویرانے ہو جاتے ہیں

منظر منطر کھل اٹھتی ہے پیراہن کی قوس قزح
موسم تیرے ہنس پڑنے سے اور سہانے ہو جاتے ہیں

جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی ہے
اسی لیے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہوجاتے ہیں

موسم عشق کی آہٹ سے ہی ہر اک چیز بدل جاتی ہے
راتیں پاگل کردیتی ہیں دن دیوانے ہو جاتے ہیں

دنیا کے اس شور نے امجد کیا کیا ہم سے چھین لیا ہے
خود سے بات کیے بھی اب تو کئی زمانے ہو جاتے ہیں

تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسِیں ہے

نگاہوں میں تُو ہے یہ دل جھومتا ہے
نہ جانے محبت کی راہوں میں کیا ہے
جو تُو ہمسفر ہے تو کچھ غم نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسِیں ہے

وہ آئیں نہ آئیں جمی ہیں نگاہیں
ستاروں نے دیکھی ہیں جُھک جُھک کے راہیں
یہ دل بدگماں ہے، نظر کو یقیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسِیں ہے

فیاضؔ ہاشمی

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ھوئے لوگ

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ھوئے لوگ
چشمِ گریہ میں رھے دل سے نکالے ھوئے لوگ

کب سے راھوں میں تری گرد بنے بیٹھے ھیں
تجھ سے ملنے کیلئے وقت کو ٹالے ھوئے لوگ

اپنی آنکھوں سے چھلکنے نہیں دیتے تجھ کو
کیسے پھرتے ھیں ترے خواب سنبھالے ھوئے لوگ

دامنِ صبح میں گرتے ھوئے تاروں کی طرح
جل رھے ھیں تری قربت کے اجالے ھوئے لوگ

یا تجھے رکھتے ھیں یا پھر تری خواھش دل میں
ایسے دنیا میں کہاں چاھنے والے ھوئے لوگ

اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں

اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں

غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں

تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں

آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں

اب نہ وہ ہیں، نہ وہ تُو ہے، نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمّنا کے سرابوں میں ملیں

اس کائناتِ محبّت میں ہم مثل شمس و قمر کے ہیں

اس کائناتِ محبّت میں ہم مثل شمس و قمر کے ہیں
ایک رابطہ مسلسل ہے، ایک فاصلہ مسلسل ہے

میں خود کو بیچ دوں پھر بھی، میں تجھ کو پا نہیں سکتا
میں عام سا ہمیشہ ہوں، تو خاص سا مسلسل ہے

وقتِ وصال کی بھی ایک آرزو ادھوری ہے
ایک آس سی ہمیشہ ہے، ایک خواب سا مسلسل ہے

خطا کاروں کی قسمت میں جنّت ہوا نہیں کرتی
میں خطا کار ازل سے ہوں، تو پارسا مسلسل ہے

یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعاکرو، نہ دوا کرو

یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعاکرو، نہ دوا کرو
جو کرو تو اتنا کرم کرو، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو

یہ جو ایک ترکشِ وقت ہے، ابھی اس میں تیر بہت سے ہیں
کوئی تیر تم کو نہ آلگے ، مرے حالِ دل پہ نہ یوں ہنسو

میں نہ قیس ہوں، نہ ہوں کوہکن، مجھے اپنی جان عزیز ہے
مجھے ترکِ عشق قبول ہے جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو

جو تمھارے دل میں شکوک ہیں تو یہ عہد نامے فضول ہیں
یہ تمھارے خط ہیں سنبھال لو، جو مرے خطوط ہوں پھاڑ دو

جو کوئی کسی کو ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا
یہ تو اک اُصول کی بات ہے جو خفا ہو مجھ سے تو کوئی ہو

تاریخ نے پوچھا اے لوگو ،

تاریخ نے پوچھا اے لوگو ،
یہ دنیا کس کی دنیا ہے
شاہی نے کہا یہ میری ہے،
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر تخت بچھے ایوان سجے،
گھڑیال بجے دربار لگے
تلوار چلی اور خون بہے،
انسان لڑے انسان مرے
دنیا نے آخر شاہی کو،
پہچان لیا پہچان لیا
تاریخ نے پوچھا پھر لوگو،
یہ دنیا کس کی دنیا ہے
دولت نے کہا یہ میری ہے،
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر بینک کھلے بازار جمے،
بازار جمے بیوپار بڑھے
انسان لٹے انسان بکے،
آرام اڑے سب چیخ اٹھے
دنیا نے آخر دولت کو،
پہچان لیا پہچان لیا
تاریخ نے پوچھا پھر لوگو،
یہ دنیا کس کی دنیا ہے
محنت نے کہا یہ میری ہے،
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر روح دبی پھر پیٹ بڑھے،
افکار سڑے کردار گرے
ایمان لٹے اخلاق جلے،
انسان نرے حیوان بنے
دنیا نے آخر محنت کو،
پہچان لیا پہچان لیا
تاریخ نے پوچھا پھر لوگو،
یہ دنیا کس کی دنیا ہے
مومن نے کہا اللہ کی ہے،
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر قلب و نظر کی صبح ہوی
اک نور کی لے سی پھوٹ بہی
اک اک خودی کی آنکھ کھلی،
فطرت کی صدا پھر گونج اٹھی
دنیا نے آخر آقا کو،
پہچان لیا پہچان لیا

توڑے ککھ ہیں سانول گلیاں دے

توڑے ککھ ہیں سانول گلیاں دے 
سا کوں سانبھ کے رکھ، تیڈے کم آسوں

توں بیشک مالک ملکیں دا
ساکوں کر نہ وکھ، ،تیڈے کم آسوں...

کم ککھین نال وی پے ویندے
ساکوں آکھ چا ککھ ،تیڈے کم آسوں

سا کوں بال کے شاکر ہتھ سیکیں
شالا تھیویں لکھ ،تیڈے کم آسوں

ایک آس … ایک احساس … میری سوچ … اور بس تم … !

ایک آس … ایک احساس … میری سوچ … 
اور بس تم … ! 
ایک سوال … ایک مجال … تمہارا خیال 
اور بس تم … ! 
ایک بات … ایک شام … تمہارا ساتھ 
اور بس تم … ! 
ایک دعا … ایک فریاد ، تمہاری یاد
اور بس تم … !
میرا جنون … میرا سکون …
بس تم … اور بس تم . . . !

ہمیں دریافت کرنے سے، ہمیں تسخیر کرنے تک

ہمیں دریافت کرنے سے، ہمیں تسخیر کرنے تک
بہت ہیں مرحلے باقی، ہمیں زنجیر کرنے تک


ہمارے ہجر کے قصّے، سمیٹوگے تو لکھوگے
ہزاروں بار سوچو گے، ہمیں تحریر کرنے تک


ہمارا دل ہے پیمانہ، سو پیمانہ تو چھلکے گا
چلو دو گھونٹ تم بھر لو، ہمیں تاثیر کرنے تک

پرانے رنگ چھوڑو آنکھ کے، اک رنگ ہی کافی ہے
محبّت سے چشم بھر لو، ہمیں تصویر کرنے تک

ہنر تکمیل سے پہلے، مصور بھی چھپاتا ہے
ذرا تم بھی چھپا رکھو، ہمیں تعمیر کرنے تک

وہ ہم کو روز لوٹتے ہیں، اداؤں سے بہانوں سے
خدا رکھے! لٹیرے کو، ہمیں فقیر کرنے تک

ﺩﻝ ﭘﺠﺎﺭﯼ ﮨﮯ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﯾﮏ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﺎ

ﺩﻝ ﭘﺠﺎﺭﯼ ﮨﮯ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﯾﮏ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﺎ
ﺍﺳﮑﻮ ﺳﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﺩﮐﮫ

ﺻﺒﺢ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮬﭽﮑﯿﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﺑﻨﺪﮬﯽ
ﮐﯿﺴﺎ ﻇﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ ﮈﮬﻠﺘﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﺩﮐﮫ

ﺟﯿﺖ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺼﯿﺐ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮈﻭﺑﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺎﺕ ﮐﺎ ﺩﮐﮫ

ﺩﺭﺩ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﯼ۔۔۔۔۔۔ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ
ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯﺗﯿﺮﯼ ۔۔۔۔۔۔ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺩﮐﮫ

ہم سے کیا پوچھنا __مزاج حیات ؟

ہم سے کیا پوچھنا __مزاج حیات ؟
ہم تو بس اک دریدہ دامن میں
بھر کے خاکستر دیار وفا ___!
لے کے صدیوں کی باس پھرتے ہیں
ان دنوں شہر بھر کے رستوں میں
ہم اکیلے اداس پھرتے ہیں
محسن نقوی

اداس لوگوں کی بستیوں میں وہ تتلیوں کو تلاش کرتی

اداس لوگوں کی بستیوں میں
وہ تتلیوں کو تلاش کرتی
وہ ایک لڑکی ___
وہ گول چہرہ ، وہ کالی آنکھیں
جو کرتی رہتی ہزار باتیں
مزاج سادہ ___ وہ دل کی اچھی 
وہ ایک لڑکی ___
ساری باتیں وہ دل کی مانے
وہی کرے وہ ، جو دل میں ٹھانے
کوئی نا جانے ___ کیا اس کی مرضی
وہ ایک لڑکی ___
وہ چاہتوں کے سراب دیکھے
محبتوں کے وہ خواب دیکھے
وہ خود سمندر مگر ہے پیاسی
وہ ایک لڑکی ___
وہ دوستی کے نصاب جانے
وہ جانتی ہے عہد نبھانے
وہ اچھی دوست وہ اچھی ساتھی
وہ ایک لڑکی ___
وہ جام چاہت کا پینا چاہے
وہ اپنے مرضی سے جینا چاہے
مگر ہے ڈرتی ___ مگر ہے ڈرتی
وہ ایک لڑکی ___
محبتوں کا جو فلسفہ ہے
وہ جانتی ہے ___ اسے پتہ ہے
وہ پھر بھی رہتی ڈری ڈری سی
وہ ایک لڑکی ___
وہ جھوٹے لوگوں کو سچا سمجھے
وہ ساری دنیا کو اچھا سمجھے
وہ کتنی سادی ___ وہ کتنی پگلی
وہ ایک لڑکی.....

میں نعرہ مستانہ ،میں شوقی رندانہ

میں نعرہ مستانہ ،میں شوقی رندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں ،پی کر بھی کہاں جانا
میں سوز محبّت ہوں ،میں ایک قیامت ہوں
میں اشک ندامت ہوں ،میں گوہر یکدانہ
میں طاہر لاہوتی ،میں جوہر ملکوتی
نسوت نے کب مجھ کو اس حال میں پہچانہ
میں شام فروزہ ہوں ،میں آتش لرزہ ہوں
میں سوزش ہجراں ہوں ،میں منزل پروانہ
کس یاد کا صحرا ہوں ،کس چشم کا دریا ہوں
خود طور کا جلوہ ہوں ،ہے شکل قلبانہ
میں حسن مجسم ہوں ،میں گیسسوئے برہم ہوں
میں پھول ہوں شبنم ہوں ،میں جلوہ جانانہ
میں واصف بسمل ہوں ،میں رونق محفل ہوں
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں ،میں سحر میں ویرانہ

،،،،،،واصف علی واصف

کہاں آکے رُکنے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا ، اُسے بھول جا

کہاں آکے رُکنے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا ، اُسے بھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ ، جو نہیں ملا اُسے بُھول جا

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سُن اُسے بھول جا ، اُسے بُھول جا

میں تو گُم تھا تیرے ہی دھیان میں ، ترِی آس ، تیرے گُمان میں
صبا کہ گئی مرے کان میں ، میرے ساتھ آ ، اُسے بُھول جا

کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بُھلا دیا ، تو بھی مسکرا ، اُسے بُھول جا

کہیں چاکِ جاں کا رَفو نہیں ، کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خُوں بہا ، اُسے بُھول جا

کیوں اَٹا ہوا ہے غُبار میں ، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درج تھا ترے بخت میں ، سو وہ ہو گیا ، اُسے بُھول جا

نہ وُہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی ، ، نہ وُہ خُواب ہی ترا خُواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا ، اُسے بُھول جا

یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا ، اسے دیکھ ، اس پہ یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مُستقل سرِ آئینہ ، اُسے بُھول جا

جو بساطِ جاں ہی اُلٹ گیا ، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
اُسے روکنے سے حصول کیا ، اُسے مت بُلا ، اسے بُھول جا

تو یہ کس لئے شبِ ہجر کے اُسے ہر ستارے میں دیکھنا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم ، کوئی اور تھا ، اُسے بُھول جا

تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ، ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو
وہ تھا اک دریا وصال کا ، سو اُتر گیا اُسے بُھول جا

ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﮭﺎ

ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺗﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺎ
ﺗﮭﺎﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺗﮭﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﺎ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﺩِﻥ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﯿﺪﺍ، ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺭﺍﺗﯿﮟ
ﮐﻢ ﻣﻠﺘﺎ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺗﮭﺎ ﮨﻢ
ﺳﮯ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﻼﻗﺎﺗﯿﮟ
ﺭﻧﮓ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﮩﺎﺑﯽ ﺗﮭﺎ
ﺯﻟﻔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﮩﮑﺎﺭﯾﮟ
ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺎﺩﻭ ﺗﮭﺎ
ﭘﻠﮑﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ
ﺩﺷﻤﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﺩﯾﮑﮭﮯ،
ﺳﻮﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮨﺎﺭﮮ
ﮐﭽﮫ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺒﺎﮨﺖ ﺗﮭﯽ
ﮨﺎﮞ ﺗﻢ ﺳﺎ ﮨﯽ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺷﻮﺧﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﻣﯿﮟ
ﻟﮕﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯽ ﺳﺎ ﺗﮭﺎ
ﺩﺳﺘﻮﺭ ﻣﺤﺒّﺖ ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﮎ ﺩِﻥ
ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﻮﻻ
ﺗﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮈﻭﺑﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭨﻮﭨﺎ
ﭘﮭﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﻭﮦ ، ﮨﻢ ﻧﮯ
ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﮈﮬﻮﻧﮉﺍ
ﺗﻢ ﮐﺲ ﻟﺌﮯ ﭼﻮﻧﮑﮯ ﮨﻮ!!!
ﺗﻢ ﮐﺲ ﻟﺌﮯ ﭼﻮﻧﮑﮯ ﮨﻮﮐﺐ
ﺫﮐﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﮯ
ﮐﺐ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮨﮯ،ﮐﺐ
ﺗﻢ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ
ﺍﮎ ﺗﺎﺯﮦ ﺣﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ ﺳﻦ ﻟﻮ
ﺗﻮ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮨﮯ
ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺗﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﺍﮎ ﺗﺎﺯﮦ ﺣﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ ﺳﻦ ﻟﻮ
ﺗﻮ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮨﮯ

ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ

ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﺘﺎ
ﮨﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﺭﻧﮓ ﻣﻠﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺟﯿﺴﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﺁﮒ ﺟﻠﺘﯽ
ﮨﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻝ
ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ۰
ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ

جھے منظورہے مسکن، مگر بستی نہیں صحرا

جھے منظورہے مسکن، مگر بستی نہیں صحرا
کہ دنیا کے جھمیلوں پر، یہ دل راضی نہیں ہوتا
وہ کب تک روٹھتا رہتا اُسے کب تک مناتے ہم؟
اُسے اِس بار جانا تھا تو ہم نے بھی نہیں روکا
ہاں سازِ دل شکستہ ہے، مگر یہ بھی غنیمت ہے
سُنا ہے خوابِ جاں ٹوٹے تو کچھ باقی نہیں رہتا
تری راہوں پہ چلنے سے، جگر کا خون کرنے سے
زمانے نے بہت روکا دلِ وحشی نہیں سمجھا
یہ کج بحثی کے جو قصے مری نسبت ہیں ، جھوٹے ہیں
مرا قاتل گواہ میں نے گناہ تک بھی نہیں پوچھا
اجر صبرِ مسلسل کا یہ آنسو کیوں ڈبودے گا؟
نہیں نکلا جو صدیوں سے تو کیا اب بھی نہیں بہتا؟
سخن ور ایک لمحہ لفظوں کا جادو جگاتا ہے
مگر مجھ کو شکایت ہے، مرے دل کی نہیں کہتا



میں دن ڈھلتا میں شام پیا


میں دن ڈھلتا میں شام پیا
مرا جیون کتنا عام پیا
مرے چاروں اور ہوائیں ہیں
میں ریت پہ لکھٌا نام پیا
ھے کون سخی،ھے کون کھرا
مجھے لوگوں سے کیا کام پیا
ترا نام لکھا ھر بُوٹے پر
اور میں صحرا گُمنام پیا
مری اکھیوں میں کچھ دیر ٹھہر
جھٹ کر لے تُو آرام پیا
تُو چھوڑ گیا تو دکھتا ھے
سُونا آنگن،ھر گام پیا
تُو ھرجائی ھے ازلوں کا
مت دے مجھکو الزام پیا!



اٹھانے کو یہ دل چاہے ترا ہر ناز بارش میں


اٹھانے کو یہ دل چاہے ترا ہر ناز بارش میں
کہ بھاتا ہی نہیں مجھ کو کوئی ناراض بارش میں

جو چاہوں گنگنانا تو دلِ سادہ مرا رو دے
نجانے کھو گیا ہے کیوں مرا ہر ساز بارش میں

گھٹا چھاتے ہی کالی تکنے لگتا ہے فضاؤں میں
نجانے سوچتا ہے کیا مرا ناراض بارش میں

ٹھٹھرتے لب، لٹیں الجھیں، سمٹتا بھیگتا آنچل
کہ ہوتا منفرد ہے کب مرا انداز بارش میں

نظارہ جن کا بن جائے دلوں کے درد کا درماں
فقط ملتا ہے پھولوں کو ہی یہ اعجاز بارش میں

کڑے موسم میں جب مجھ سے تعلق وہ نہیں رکھتا
اٹھائے جاتا ہے پھر کیوں مرا ہر ناز بارش میں

چھپا ہے درد کیا دل میں جو بوندوں سے ابھرتا ہے
جیا ! کیوں کپکپاتی ہے تری آواز بارش میں