Wednesday, 14 May 2014

ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ افسانے ہو جاتے ہیں

ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ افسانے ہو جاتے ہیں
آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں خواب پرانے ہو جاتے ہیں

ساری بات تعلق والی جذبوں کی سچائی تک ہے
میل دلوں میں آجائے تو گھر ویرانے ہو جاتے ہیں

منظر منطر کھل اٹھتی ہے پیراہن کی قوس قزح
موسم تیرے ہنس پڑنے سے اور سہانے ہو جاتے ہیں

جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی ہے
اسی لیے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہوجاتے ہیں

موسم عشق کی آہٹ سے ہی ہر اک چیز بدل جاتی ہے
راتیں پاگل کردیتی ہیں دن دیوانے ہو جاتے ہیں

دنیا کے اس شور نے امجد کیا کیا ہم سے چھین لیا ہے
خود سے بات کیے بھی اب تو کئی زمانے ہو جاتے ہیں

No comments: